ہنسی گلوں میں ستاروں میں روشنی نہ ملی
ملے نہ تم تو کہیں بھی ہمیں خوشی نہ ملی
نہ چاند میں نہ شفق میں نہ لالہ و گل میں
جو آپ میں ہے کہیں بھی وہ دل کشی نہ ملی
نگاہ لطف کی ہے منتظر مری شب غم
ستارے ڈوب چلے اور روشنی نہ ملی
ہمیں کو سونپ دیے کل جہاں کے رنج و الم
کسی میں اور ہماری سی دل دہی نہ ملی
نگاہ دوست نے بخشی جو دل کو مدہوشی
شراب و جام سے ہم کو وہ بے خودی نہ ملی
ہر اک نشاط میں پنہاں ملا نشاط کا غم
جو عیش سے ہو بسر ایسی زندگی نہ ملی
مرے خیال میں ہیں یہ تجلیاں کس کی
اندھیری رات میں بھی مجھ کو تیرگی نہ ملی
وہی فضا وہی گلشن وہی ہوا ہے مگر
ملی جو گل کو وہ خاروں کو زندگی نہ ملی
گلہ کریں گے نہ اب میرے بعد کے رہرو
کہ ان کو راہ محبت میں روشنی نہ ملی
ہزار بار ہوا خون آرزو لیکن
کبھی کسی کو مری آنکھ میں نمی نہ ملی
جو چھیڑتی مرے بیتاب دل کے تاروں کو
کسی بھی ساز میں درشن وہ نغمگی نہ ملی

غزل
ہنسی گلوں میں ستاروں میں روشنی نہ ملی
درشن سنگھ