ہنس رہا تھا میں بہت گو وقت وہ رونے کا تھا
سخت کتنا مرحلہ تجھ سے جدا ہونے کا تھا
رتجگے تقسیم کرتی پھر رہی ہیں شہر میں
شوق جن آنکھوں کو کل تک رات میں سونے کا تھا
اس سفر میں بس مری تنہائی میرے ساتھ تھی
ہر قدم کیوں خوف مجھ کو بھیڑ میں کھونے کا تھا
ہر بن مو سے درندوں کی صدا آنے لگی
کام ہی ایسا بدن میں خواہشیں بونے کا تھا
میں نے جب سے یہ سنا ہے خود سے بھی نادم ہوں میں
ذکر تجھ ہونٹوں پہ میرے در بدر ہونے کا تھا
غزل
ہنس رہا تھا میں بہت گو وقت وہ رونے کا تھا
شہریار