ہنس کے پیمانہ دیا ظالم نے ترسانے کے بعد
آج نازک سے لب ساقی ہیں پیمانے کے بعد
خم کدوں میں کچھ نہ ہوگا ایک پیمانے کے بعد
رہ نہیں سکتی کبھی مے لب تک آ جانے کے بعد
میں ہوں ساقی ہے شب خلوت ہے دور جام ہے
بوسہ پر بوسہ ہے پیمانہ ہے پیمانے کے بعد
وقت ہے ایسا تھا رخصت ہو گئی ان کی حیا
بات ہی ایسی تھی کھل کھیلے وہ شرمانے کے بعد
چھیڑتے ہیں پا کے موقع ان کے اترے ہار بھی
بنتے ہیں کیوں دل ہمارا پھول مرجھانے کے بعد
حسن ہو یا عشق ہوتی ہے بری دل کی لگی
جل بجھی رو رو کے آخر شمع پروانے کے بعد
کہہ کے میں دل کی کہانی کس قدر کھویا گیا
ہیں فسانوں پر فسانے میرے افسانے کے بعد
بے خودی گم گشتگی سکر و تحیر محویت
کچھ مقامات اور بھی پڑتے ہیں میخانے کے بعد
دور تک شہرت ہے اس کی طور کہتے ہیں جسے
بے چراغ اک جلوہ گہ ہے میرے ویرانے کے بعد
کوئی ہیرے کی کنی سے کم نہ تھا ہنگام ضبط
کچھ ہمیں پینا پڑے آنسو بھی غم کھانے کے بعد
عشق کی تاریخ دہرائی زمانے نے ضرور
نام پایا قیس نے بھی تیرے دیوانے کے بعد
شور ہے رہنا قیامت سے بہت ہی ہوشیار
ان کے کوچے سے اٹھی ہے ٹھوکریں کھانے کے بعد
طبع ہو بھی تو کہیں دیوان میرا اے ریاضؔ
دیکھنے کی چیز ہوگا یہ صنم خانے کے بعد
غزل
ہنس کے پیمانہ دیا ظالم نے ترسانے کے بعد
ریاضؔ خیرآبادی