EN हिंदी
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا | شیح شیری
hans hans ke jam jam ko chhalka ke pi gaya

غزل

ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا

عبد الحمید عدم

;

ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
وہ خود پلا رہے تھے میں لہرا کے پی گیا

توبہ کے ٹوٹنے کا بھی کچھ کچھ ملال تھا
تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا

ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو
ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا

وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے
میں دوستوں کے غیظ کو بھڑکا کے پی گیا

صدہا مطالبات کے بعد ایک جام تلخ
دنیائے جبر و صبر کو دھڑکا کے پی گیا

سو بار لغزشوں کی قسم کھا کے چھوڑ دی
سو بار چھوڑنے کی قسم کھا کے پی گیا

پیتا کہاں تھا صبح ازل میں بھلا عدمؔ
ساقی کے اعتبار پہ لہرا کے پی گیا