ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
وہ خود پلا رہے تھے میں لہرا کے پی گیا
توبہ کے ٹوٹنے کا بھی کچھ کچھ ملال تھا
تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا
ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو
ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا
وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے
میں دوستوں کے غیظ کو بھڑکا کے پی گیا
صدہا مطالبات کے بعد ایک جام تلخ
دنیائے جبر و صبر کو دھڑکا کے پی گیا
سو بار لغزشوں کی قسم کھا کے چھوڑ دی
سو بار چھوڑنے کی قسم کھا کے پی گیا
پیتا کہاں تھا صبح ازل میں بھلا عدمؔ
ساقی کے اعتبار پہ لہرا کے پی گیا
غزل
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
عبد الحمید عدم