EN हिंदी
ہنگاموں کے قحط سے کھڑکی دروازے مبہوت | شیح شیری
hangamon ke qaht se khiDki darwaze mabhut

غزل

ہنگاموں کے قحط سے کھڑکی دروازے مبہوت

سلطان اختر

;

ہنگاموں کے قحط سے کھڑکی دروازے مبہوت
آنگن آنگن ناچ رہے ہیں سناٹوں کے بھوت

بوجھل آنکھیں پتھریلے لب اجڑے ہوئے رخسار
سب کے کاندھوں پر رکھے ہیں چہروں کے تابوت

الگ الگ خود ہی کر لے گی لمحوں کی میزان
کس کو فرصت کون گنے اب برے بھلے کرتوت

چمک رہے ہیں مایوسی کے تیز نکیلے دانت
دل کے چوراہے پر زخمی امیدیں مبہوت

حال سے اب سمجھوتا کر کے تازہ دم ہو لو
مستقبل تک ڈھو نہ سکو گے ماضی کا تابوت