ہنگاموں کے قحط سے کھڑکی دروازے مبہوت
آنگن آنگن ناچ رہے ہیں سناٹوں کے بھوت
بوجھل آنکھیں پتھریلے لب اجڑے ہوئے رخسار
سب کے کاندھوں پر رکھے ہیں چہروں کے تابوت
الگ الگ خود ہی کر لے گی لمحوں کی میزان
کس کو فرصت کون گنے اب برے بھلے کرتوت
چمک رہے ہیں مایوسی کے تیز نکیلے دانت
دل کے چوراہے پر زخمی امیدیں مبہوت
حال سے اب سمجھوتا کر کے تازہ دم ہو لو
مستقبل تک ڈھو نہ سکو گے ماضی کا تابوت
غزل
ہنگاموں کے قحط سے کھڑکی دروازے مبہوت
سلطان اختر