EN हिंदी
ہنگامہ شہر جاں میں مسلسل لہو سے ہے | شیح شیری
hangama shahr-e-jaan mein musalsal lahu se hai

غزل

ہنگامہ شہر جاں میں مسلسل لہو سے ہے

محبوب راہی

;

ہنگامہ شہر جاں میں مسلسل لہو سے ہے
احساس میں ہے جتنی بھی ہلچل لہو سے ہے

شادابیاں اسی کی بدولت ہیں روح میں
ہے ریگزار جسم جو جل تھل لہو سے ہے

ثابت ہوا کہ دیتا ہے تو یہ بھی آگ سی
ثابت ہوا یہ سوز مسلسل لہو سے ہے

خاکے سبھی ادھورے ہیں سب نقش نا تمام
دنیا میں جو بھی کچھ ہے مکمل لہو سے ہے

قائم ہے اس سے عارض گلگوں کی دل کشی
رنگیں رخ حیات کا آنچل لہو سے ہے

دانشوری لہو سے ملی ایک شخص کو
اک اور شخص ہے کہ جو پاگل لہو سے ہے

راہیؔ وگرنہ ذہن ہے تاریکیوں کا گھر
روشن خیال و فکر کی مشعل لہو سے ہے