ہنگامہ ہے نہ فتنۂ دوراں ہے آج کل
ہر سمت شمع امن فروزاں ہے آج کل
سننے میں آ رہے ہیں مسرت کے واقعات
جمہوریت کا حسن نمایاں ہے آج کل
جو غنچہ ہے وہ اپنے تبسم میں مست ہے
جو پھول ہے بہار بہ داماں ہے آج کل
نظروں میں اضطراب نہ دل میں کوئی کھٹک
کانٹوں سے پاک صحن گلستاں ہے آج کل
مدت کے بعد آیا ہے آزادیوں کا لطف
افسردہ ہے نہ کوئی پریشاں ہے آج کل
اب اہل کارواں کا بھٹکنا بحال ہے
خود میر کارواں ہی نگہباں ہے آج کل
جس انجمن میں جاتے نہ تھے پہلے اہل دل
شعریؔ اس انجمن میں غزل خواں ہے آج کل
غزل
ہنگامہ ہے نہ فتنۂ دوراں ہے آج کل
شعری بھوپالی