ہنگامۂ سکوت بپا کر چکے ہیں ہم
اک عمر اس گلی میں صدا کر چکے ہیں ہم
اپنے غزال دل کا نہیں مل رہا سراغ
صحرا سے شہر تک تو پتا کر چکے ہیں ہم
اب تیشۂ نظر سے یہ دل ٹوٹتا نہیں
اس آئینے کو سنگ نما کر چکے ہیں ہم
ہر بار اپنے پاؤں خلا میں اٹک گئے
سو بار خود کو رزق ہوا کر چکے ہیں ہم
اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں اختیار میں
وہ جبر تھا کہ خود کو خدا کر چکے ہیں ہم
غزل
ہنگامۂ سکوت بپا کر چکے ہیں ہم
سالم سلیم