EN हिंदी
ہنگامۂ سکوت بپا کر چکے ہیں ہم | شیح شیری
hangama-e-sukut bapa kar chuke hain hum

غزل

ہنگامۂ سکوت بپا کر چکے ہیں ہم

سالم سلیم

;

ہنگامۂ سکوت بپا کر چکے ہیں ہم
اک عمر اس گلی میں صدا کر چکے ہیں ہم

اپنے غزال دل کا نہیں مل رہا سراغ
صحرا سے شہر تک تو پتا کر چکے ہیں ہم

اب تیشۂ نظر سے یہ دل ٹوٹتا نہیں
اس آئینے کو سنگ نما کر چکے ہیں ہم

ہر بار اپنے پاؤں خلا میں اٹک گئے
سو بار خود کو رزق ہوا کر چکے ہیں ہم

اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں اختیار میں
وہ جبر تھا کہ خود کو خدا کر چکے ہیں ہم