ہنگامۂ خودی سے تو بے نیاز ہو جا
گم ہو کے بے خودی میں آگاہ راز ہو جا
حد بھی تو چاہیئے کچھ بے اعتنائیوں کی
غارت گر تحمل تسکیں نواز ہو جا
اے سرمدی ترانے ہر شے میں سوز بھر دے
یہ کس نے کہہ دیا ہے پابند ساز ہو جا
غیرت کی چلمنوں سے آواز آ رہی ہے
محو نیاز مندی آ بے نیاز ہو جا
آ مل کے پھر بنائیں مے خانۂ محبت
میں جرعہ کش بنوں تو پیمانہ ساز ہو جا
سینے میں سوز بن کر کب تک چھپا رہے گا
عنوان رازداری تفصیل راز ہو جا
اب سو چکی امیدیں اب تھک چکیں نگاہیں
جان نیاز مندی مصروف ناز ہو جا
سوز نظر سے چھلکیں نغمات راز ہستی
اے عقدۂ تغافل روداد ناز ہو جا
احسانؔ کاش اٹھیں یہ رنگ و بو کے پردے
اے محفل حقیقت بزم مجاز ہو جا
غزل
ہنگامۂ خودی سے تو بے نیاز ہو جا
احسان دانش