EN हिंदी
ہم راز رقیب ہو گئے ہو | شیح شیری
hamraaz-e-raqib ho gae ho

غزل

ہم راز رقیب ہو گئے ہو

احمد عظیم آبادی

;

ہم راز رقیب ہو گئے ہو
اب میرے قریب ہو گئے ہو

تم اپنا مکان بھی اجالو
تاروں کے منیب ہو گئے ہو

بیمار امید کو دعا دو
مجبور طبیب ہو گئے ہو

تابوت میں روح پھونکنے کو
تم اذن صلیب ہو گئے ہو

ہر پردہ کے بعد ایک پردہ
حد درجہ عجیب ہو گئے ہو

سونے کی انگشتری میں احمدؔ
انگشت غریب ہو گئے ہو