ہم راز رقیب ہو گئے ہو
اب میرے قریب ہو گئے ہو
تم اپنا مکان بھی اجالو
تاروں کے منیب ہو گئے ہو
بیمار امید کو دعا دو
مجبور طبیب ہو گئے ہو
تابوت میں روح پھونکنے کو
تم اذن صلیب ہو گئے ہو
ہر پردہ کے بعد ایک پردہ
حد درجہ عجیب ہو گئے ہو
سونے کی انگشتری میں احمدؔ
انگشت غریب ہو گئے ہو
غزل
ہم راز رقیب ہو گئے ہو
احمد عظیم آبادی