ہمیں تھے جان بہاراں ہمیں تھے رنگ طرب
ہمیں ہیں بزم مے و گل میں آج مہر بہ لب
وہی تجھے بھی نظر آئے بے ادب جو لوگ
فقیہ شہر سے الجھے تری گلی کے سبب
خیال و فکر کے پھر سلسلے سلگ نہ اٹھیں
کہ چبھ رہی ہے دلوں میں ہوائے گیسوئے شب
بس ایک جام نے رندوں کی آبرو رکھ لی
وگرنہ کم نہ تھا واعظ کا شور غیظ و غضب
چلو کلی کے تبسم کا راز پوچھ آئیں
گلوں کے قافلے چل دیں چمن سے جانے کب
ابھی سے دھڑکنیں خاموش ہوتی جاتی ہیں
عجیب ہوگا سماں وہ بھی تم نہ آؤ گے جب
ہمیں ہی تاب سماعت نہ ہو سکی راحتؔ
فسانہ خواں نے تو چھیڑا تھا ذکر عہد طرب
غزل
ہمیں تھے جان بہاراں ہمیں تھے رنگ طرب
امین راحت چغتائی