ہمیں تک رہ گیا قصہ ہمارا
کسی نے خط نہیں کھولا ہمارا
پڑھائی چل رہی ہے زندگی کی
ابھی اترا نہیں بستہ ہمارا
معافی اور اتنی سی خطا پر
سزا سے کام چل جاتا ہمارا
کسی کو پھر بھی مہنگے لگ رہے تھے
فقط سانسوں کا خرچہ تھا ہمارا
یہیں تک اس شکایت کو نہ سمجھو
خدا تک جائے گا جھگڑا ہمارا
طرف داری نہیں کر پائے دل کی
اکیلا پڑ گیا بندہ ہمارا
تعارف کیا کرا آئے کسی سے
اسی کے ساتھ ہے سایہ ہمارا
نہیں تھے جشن یاد یار میں ہم
سو گھر پر آ گیا حصہ ہمارا
ہمیں بھی چاہیے تنہائی شارقؔ
سمجھتا ہی نہیں سایہ ہمارا
غزل
ہمیں تک رہ گیا قصہ ہمارا
شارق کیفی