ہمیں پہ تنگ یہ وقت رواں ہوا تو کیا
دراز اور بھی کار جہاں ہوا تو کیا
یہ سرخ تلوے یہ تنہائی آخری ہچکی
اب اس سے آگے کوئی کارواں ہوا تو کیا
یہ راستے ہیں بزرگوں کی خاک سے روشن
سو میں بھی چل کے یہیں رائیگاں ہوا تو کیا
یہاں تو شہر ہی آتش فشاں کی زد پر ہے
جو اپنے سینے میں تھوڑا دھواں ہوا تو کیا
غرور یوں ہے کہ اس کے گداگروں میں ہوں
برائے خلق میں شاہ جہاں ہوا تو کیا
ہمیں نے دی تھی جگہ اس کو اپنی پلکوں میں
وہ ذرہ آج جو کوہ گراں ہوا تو کیا
جو کر سکا نہ کسی طور مطمئن خود کو
سوال اٹھتا ہے معجز بیاں ہوا تو کیا
تمام لوگ سماعت سے ہو گئے محروم
تب اپنا لہجہ غزل کی زباں ہوا تو کیا
ندیمؔ آنکھ میں آنسو ہے سارے عالم کا
وطن ہمارا جو ہندوستاں ہوا تو کیا
غزل
ہمیں پہ تنگ یہ وقت رواں ہوا تو کیا
ندیم فاضلی