ہمیں پر دھوپ برساتا ہے سورج بھی مقدر بھی
درخت مہرباں کوئی کرے سایہ تو ہم پر بھی
عیاں ہوتی چلی جاتی ہیں سب چہرے کی تحریریں
ہوئی جاتی ہے نا کافی خموشی کی یہ چادر بھی
بدن کی روشنی میں جو نہ دیکھا جا سکا ہم سے
اسی شیشے کے پیکر میں دھڑکتا تھا وہ پتھر بھی
حقیقت سے تصور تک سفر مجھ میں کیا اس نے
مگر مجھ تک نہیں پہنچا وہ اتنی دور چل کر بھی
کوئی موسیٰ و عیسیٰ و محمد اب نہ آئے گا
ہمارے ناتواں شانوں پہ ہے کار پیمبر بھی

غزل
ہمیں پر دھوپ برساتا ہے سورج بھی مقدر بھی
امتیاز خان