EN हिंदी
ہمیں پر دھوپ برساتا ہے سورج بھی مقدر بھی | شیح شیری
hamin par dhup barsata hai suraj bhi muqaddar bhi

غزل

ہمیں پر دھوپ برساتا ہے سورج بھی مقدر بھی

امتیاز خان

;

ہمیں پر دھوپ برساتا ہے سورج بھی مقدر بھی
درخت مہرباں کوئی کرے سایہ تو ہم پر بھی

عیاں ہوتی چلی جاتی ہیں سب چہرے کی تحریریں
ہوئی جاتی ہے نا کافی خموشی کی یہ چادر بھی

بدن کی روشنی میں جو نہ دیکھا جا سکا ہم سے
اسی شیشے کے پیکر میں دھڑکتا تھا وہ پتھر بھی

حقیقت سے تصور تک سفر مجھ میں کیا اس نے
مگر مجھ تک نہیں پہنچا وہ اتنی دور چل کر بھی

کوئی موسیٰ و عیسیٰ و محمد اب نہ آئے گا
ہمارے ناتواں شانوں پہ ہے کار پیمبر بھی