ہمیں اس نے سبھی احوال سے انجان رکھا
ہمارے اور اپنے بیچ پردہ تان رکھا
کبھی حد نظر میں اور کبھی امکاں سے باہر
ہمیں تو اس نے ساری زندگی حیران رکھا
مری پرواز کی حد جانتا تھا اس لیے بھی
مرے اوپر یہ نیلا آسماں نگران رکھا
ذرا رکنا کہ میں اس بوجھ سے آزاد ہو لوں
کہ طاق دل میں ہے دنیا کا کچھ سامان رکھا
محبت کی قسم وہ مجھ سے لینا چاہتا تھا
سو ان ہاتھوں پہ لا کے میرؔ کا دیوان رکھا
غزل
ہمیں اس نے سبھی احوال سے انجان رکھا
خاور اعجاز