ہمیں تم پہ گمان وحشت تھا ہم لوگوں کو رسوا کیا تم نے
ابھی فصل گلوں کی نہیں گزری کیوں دامن چاک سیا تم نے
اس شہر کے لوگ بڑے ہی سخی بڑا مان کریں درویشوں کا
پر تم سے تو اتنے برہم ہیں کیا آن کے مانگ لیا تم نے
کن راہوں سے ہو کر آئی ہو کس گل کا سندیسہ لائی ہو
ہم باغ میں خوش خوش بیٹھے تھے کیا کر دیا آ کے صبا تم نے
وہ جو قیس غریب تھے ان کا جنوں سبھی کہتے ہیں ہم سے رہا ہے فزوں
ہمیں دیکھ کے ہنس تو دیا تم نے کبھی دیکھے ہیں اہل وفا تم نے
غم عشق میں کاری دوا نہ دعا یہ ہے روگ کٹھن یہ ہے درد برا
ہم کرتے جو اپنے سے ہو سکتا کبھی ہم سے بھی کچھ نہ کہا تم نے
اب رہرو ماندہ سے کچھ نہ کہو ہاں شاد رہو آباد رہو
بڑی دیر سے یاد کیا تم نے بڑی درد سے دی ہے صدا تم نے
اک بات کہیں گے انشاؔ جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم ایک جہاں کا علم پڑھے کوئی میرؔ سا شعر کہا تم نے
غزل
ہمیں تم پہ گمان وحشت تھا ہم لوگوں کو رسوا کیا تم نے
ابن انشا