ہمیں تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے
متاع خواب تجھے اب کدھر پہنچنا ہے
کراہتا ہے سر راہ درد سے کوئی
مگر مجھے بھی تو جلدی سے گھر پہنچنا ہے
ہمارا کیا ہے کدھر جائیں اور کب جائیں
نکل پڑو کہ تمہیں وقت پر پہنچنا ہے
کبھی تو پائے گی انجام کشمکش دل کی
کہیں تو معرکۂ خیر و شر پہنچنا ہے
ہواؤ کب سے ہیں سکتے میں زرد رو اشجار
برائے نوحہ گری کب ادھر پہنچنا ہے

غزل
ہمیں تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے
سجاد بلوچ