EN हिंदी
ہمیں تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے | شیح شیری
hamein to kal kisi agle nagar pahunchna hai

غزل

ہمیں تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے

سجاد بلوچ

;

ہمیں تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے
متاع خواب تجھے اب کدھر پہنچنا ہے

کراہتا ہے سر راہ درد سے کوئی
مگر مجھے بھی تو جلدی سے گھر پہنچنا ہے

ہمارا کیا ہے کدھر جائیں اور کب جائیں
نکل پڑو کہ تمہیں وقت پر پہنچنا ہے

کبھی تو پائے گی انجام کشمکش دل کی
کہیں تو معرکۂ خیر و شر پہنچنا ہے

ہواؤ کب سے ہیں سکتے میں زرد رو اشجار
برائے نوحہ گری کب ادھر پہنچنا ہے