EN हिंदी
ہمیں تو حرف تمنا زباں پہ لانا ہے | شیح شیری
hamein to harf-e-tamanna zaban pe lana hai

غزل

ہمیں تو حرف تمنا زباں پہ لانا ہے

سجاد سید

;

ہمیں تو حرف تمنا زباں پہ لانا ہے
یہ شعر اور یہ غزلیں تو بس بہانا ہے

تمہارے ہاتھ کا پتھر کوئی نیا تو نہیں
جبیں سے سنگ کا رشتہ بہت پرانا ہے

ہو تیرے حسن کا جادو کہ میرا جوش طلب
نشہ یہ دونوں کا اک دن اتر ہی جانا ہے

وہ مشت خاک بدن ہو کہ جان کی خوشبو
ہر ایک چیز کو اک دن بکھر ہی جانا ہے

ہے جذب شوق برابر مگر بہ فیض انا
نہ ہم ہی جائیں گے ان تک نہ ان کو آنا ہے