ہمیں تو حرف تمنا زباں پہ لانا ہے
یہ شعر اور یہ غزلیں تو بس بہانا ہے
تمہارے ہاتھ کا پتھر کوئی نیا تو نہیں
جبیں سے سنگ کا رشتہ بہت پرانا ہے
ہو تیرے حسن کا جادو کہ میرا جوش طلب
نشہ یہ دونوں کا اک دن اتر ہی جانا ہے
وہ مشت خاک بدن ہو کہ جان کی خوشبو
ہر ایک چیز کو اک دن بکھر ہی جانا ہے
ہے جذب شوق برابر مگر بہ فیض انا
نہ ہم ہی جائیں گے ان تک نہ ان کو آنا ہے
غزل
ہمیں تو حرف تمنا زباں پہ لانا ہے
سجاد سید