ہمیں سلیقہ نہ آیا جہاں میں جینے کا
کبھی کیا نہ کوئی کام بھی قرینے کا
تمہارے ساتھ ہی اس کو بھی ڈوب جانا ہے
یہ جانتا ہے مسافر ترے سفینے کا
کچھ اس کا ساتھ نبھانا محال تھا یوں بھی
ہمارا اپنا تھا انداز ایک جینے کا
سخاوتوں نے گہرساز کر دیا ہے انہیں
کوئی صدف نہیں محتاج آبگینے کا
غزل
ہمیں سلیقہ نہ آیا جہاں میں جینے کا
فارغ بخاری