ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے
تجھے تیری مجھے میری ضرورت کھینچ لاتی ہے
چھپا ہے جو خزانہ تہہ میں ان بنجر زمینوں کی
اسے باہر زمیں سے میری محنت کھینچ لاتی ہے
میں ماضی کو بھلا کر اپنے مستقبل میں زندہ ہوں
نگاہوں سے ہے جو اوجھل بشارت کھینچ لاتی ہے
مرا دشمن مری آنکھوں سے اوجھل ہو نہیں سکتا
مرے نزدیک اس کو دل کی نفرت کھینچ لاتی ہے
سمندر پار جانے والے اک دن لوٹ آئیں گے
مرا ایماں ہے مٹی کی محبت کھینچ لاتی ہے
جو اپنا گھر کسی کے عشق میں برباد کرتے ہیں
انہیں صحرا میں ان کے دل کی وحشت کھینچ لاتی ہے
کبھی ہوتا ہے جو ویران میرے شہر کا مقتل
کسی منصور کو عارفؔ صداقت کھینچ لاتی ہے
غزل
ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے
عارف شفیق