EN हिंदी
ہمیں خبر نہیں کچھ کون ہے کہاں کوئی ہے | شیح شیری
hamein KHabar nahin kuchh kaun hai kahan koi hai

غزل

ہمیں خبر نہیں کچھ کون ہے کہاں کوئی ہے

ابرار احمد

;

ہمیں خبر نہیں کچھ کون ہے کہاں کوئی ہے
ہمیشہ شاد ہو آباد ہو جہاں کوئی ہے

جگہ نہ چھوڑے کہ سیل بلا ہے تیز بہت
اڑا پڑا ہی رہے اب جہاں تہاں کوئی ہے

فشار گریہ کسی طور بے مقام نہیں
دیار غم ہے کہیں پر پس فغاں کوئی ہے

وہ کوئی خدشہ ہے یا وہم خواب ہے کہ خیال
کہ ہو نہ ہو مرے دل اپنے درمیاں کوئی ہے

کبھی تو ایسا ہے جیسے کہیں پہ کچھ بھی نہیں
کبھی یہ لگتا ہے جیسے یہاں وہاں کوئی ہے

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے فرد فرد ہیں ہم
یہ اور بات ہمارا بھی کارواں کوئی ہے

کہیں پہنچنا نہیں ہے اسے مگر پھر بھی
مثال باد بہاراں رواں دواں کوئی ہے

ہوا ہے اپنے سفر سے حضر سے بیگانہ
وہیں وہیں پہ نہیں ہے جہاں جہاں کوئی ہے

چھلک جو اٹھتی ہے یہ آنکھ فرط وصل میں بھی
تو سر خوشی میں ابھی رنج رائیگاں کوئی ہے

شکست دل ہے تو کیا راہ عشق ترک نہ کر
یہ دیکھ کیا کہیں پروردۂ زیاں کوئی ہے

اب اس نگاہ فسوں کار کا قصور ہے کیا
ہمیں دکھاؤ اگر زخم کا نشاں کوئی ہے

کہیں پہ آج بھی وہ گھر ہے ہنستا بستا ہوا
یہ وہم سا ہے ترے دل کو یا گماں کوئی ہے

جوار قریۂ یاراں میں جا نکلتا ہوں
کہ جیسے اب بھی وہیں میرا مہرباں کوئی ہے