ہمیں خبر ہے وہ مہمان ایک رات کا ہے
ہمارے پاس بھی سامان ایک رات کا ہے
سفینے برسوں نہ رکھیں گے ساحلوں پہ قدم
تمہیں گماں ہے کہ طوفان ایک رات کا ہے
ہے ایک شب کی اقامت سرائے دنیا میں
یہ سارا کھیل مری جان ایک رات کا ہے
کھلے گی آنکھ تو سمجھوگے خواب دیکھا تھا
یہ سارا کھیل مری جان ایک رات کا ہے
تمہاری شان ہماری بساط کیا ہے یہاں
شکوہ خسرو خاقان ایک رات کا ہے
بس ایک شب کا اجالا ہے اس کے دامن میں
کہ یہ چراغ نگہبان ایک رات کا ہے
غزل
ہمیں خبر ہے وہ مہمان ایک رات کا ہے
سیف الدین سیف