ہمیں دیکھا نہ کر اڑتی نظر سے
امیدوں کے نکل آتے ہیں پر سے
اب ان کی راکھ پلکوں پر جمی ہے
گھڑی بھر خواب چمکے تھے شرر سے
بچانے میں لگی ہے خلق مجھ کو
میں ضائع ہو رہا ہوں اس ہنر سے
وہ لہجہ ہائے دریائے سخن میں
مسلسل بنتے رہتے ہیں بھنور سے
سمندر ہے کوئی آنکھوں میں شاید
کناروں پر چمکتے ہیں گہر سے
توقع ہے انہیں اس ابر سے جو
دکھائی دے ادھر اس اور برسے
ذرا امکان کیا دیکھا نمی کا
نکل آئے شجر دیوار و در سے
رقم دل پر ہوا کیا کیا نہ پوچھو
بیاں ہونا ہے یہ قصہ نظر سے
سنبھلتے ہی نہیں ہم سے بکلؔ اب
بچے ہیں دن یہاں جو مختصر سے

غزل
ہمیں دیکھا نہ کر اڑتی نظر سے
بکل دیو