EN हिंदी
ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں | شیح شیری
hamdamo kya mujhko tum un se mila sakte nahin

غزل

ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں

رنگیں سعادت یار خاں

;

ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں
میں تو جا سکتا ہوں واں گر یاں وہ آ سکتے نہیں

شرم ہے ان کو بہت ہر دم چمٹنے سے مرے
وہ تڑپتے ہیں ولیکن غل مچا سکتے نہیں

ہاتھ میں ہے ہاتھ اور کوئی نہیں ہے آس پاس
وہ تو ہیں قابو میں پر ہم جی چلا سکتے نہیں

چودھویں ہے رات اور چھٹکی ہوئی ہے چاندنی
ہم کمند اب ان کے کوٹھے پر لگا سکتے نہیں

کیوں میاں رنگیںؔ بھلا اب اس زمیں میں سوچ سے
کیا غزل تم حسب حال اپنی سنا سکتے نہیں

بس میں ہیں وہ غیر کے ہم کو بلا سکتے نہیں
اور ہم اس جا کسی صورت سے جا سکتے نہیں

ہم کو ان سے ان کو ہم سے جتنی الفت ہے اسے
وہ گھٹا سکتے ہیں لیکن ہم گھٹا سکتے نہیں

غیر سے ہم کو دلاتے ہیں وہ لاکھوں گالیاں
پچھلی باتیں یاد ہم ان کو دلا سکتے نہیں

بت بنے ہیں یوں تو ہم باتیں بناتے ہیں ہزار
بات لیکن وصل کی اصلاً بتا سکتے نہیں