ہماری یاد انہیں آ گئی تو کیا ہوگا
گھٹا ادھر کی ادھر چھا گئی تو کیا ہوگا
ابھی تو بزم میں قائم ہے دو دلوں کا بھرم
نظر نظر سے جو ٹکرا گئی تو کیا ہوگا
دھڑک رہا ہے سر شام ہی سے دل کم بخت
وصال یار کی صبح آ گئی تو کیا ہوگا
یہ سوچتا ہوں کہ دل کی اداس گلیوں سے
تمہاری یاد بھی کترا گئی تو کیا ہوگا
سرور آ گیا رندوں کو دیکھتے ہی سبو
جو میکدے پہ گھٹا چھا گئی تو کیا ہوگا
وہ بات جس سے دھواں اٹھ رہا ہے سینے سے
وہ بات لب پہ اگر آ گئی تو کیا ہوگا
وفا کا دم نہ بھرو دوستو تم اسلمؔ سے
تمہیں جو وقت پہ جھٹلا گئی تو کیا ہوگا
غزل
ہماری یاد انہیں آ گئی تو کیا ہوگا
اسلم آزاد