ہماری تشنہ لبی اب سبو سے کھیلے گی
فغان دل رگ جان و گلو سے کھیلے گی
سنبھل کے رہنا کہ اس بار صیقل ابرو
کوئی بعید نہیں آبرو سے کھیلے گی
کرے گا سیل ہر اک لہر کو بلند اپنی
ہر ایک موج فقط آب جو سے کھیلے گی
جسارت رہ پرخار دیکھیے تو سہی
یہ کہہ رہی ہے مری جستجو سے کھیلے گی
بہت شگفتہ و رنگین گفتگو ہے سراجؔ
چمن میں بات تری رنگ و بو سے کھیلے گی
غزل
ہماری تشنہ لبی اب سبو سے کھیلے گی
عفیف سراج