ہماری قربتوں میں فاصلہ نہ رہ جائے
قدم سے لپٹا ہوا راستہ نہ رہ جائے
ہوائے وحشت دل تیز چل رہی ہے بہت
ردائے ہجر مرا سر کھلا نہ رہ جائے
خدا کے نام پہ جس طرح لوگ مر رہے ہیں
دعا کرو کہ اکیلا خدا نہ رہ جائے
یہ لوگ کس لئے اپنے طواف میں ہیں مگن
صنم کدے میں مصلیٰ بچھا نہ رہ جائے
طنابیں کاٹ رہا ہے وہ خواہشوں کی مری
کہیں پہ دشت میں خیمہ لگا نہ رہ جائے
یہ لمحہ لمحہ جو ہم جام ہجر پی رہے ہیں
تو تشنگی کا سلیقہ دھرا نہ رہ جائے
مجاوران ادب اک نظر عنایت کی
غزل کی شکل میں کتبہ لگا نہ رہ جائے
غزل
ہماری قربتوں میں فاصلہ نہ رہ جائے
تسنیم عابدی