ہماری پیاس کو اتنا جگایا ہے مقدر نے
کہ اک قطرے کو بھی دریا بنایا ہے مقدر نے
کبھی طوفاں سے ٹکرائے کبھی موجوں سے لڑ بیٹھے
ہمیں حالات سے لڑنا سکھایا ہے مقدر نے
ہماری چاہتوں کی شب بھی گزری وقت سے پہلے
ہمیں اک خواب ایسا بھی دکھایا ہے مقدر نے
نہ کوئی آرزو ہے اب نہ کوئی جستجو مجھ کو
مجھے کیوں زندگی سے اب ملایا ہے مقدر نے
جہاں منزل تو حاصل ہے مگر اپنا نہیں کوئی
مجھے کیوں ایسے رستوں پر چلایا ہے مقدر نے
رلایا ہے ستایا ہے جلایا ہے کہ اے طالبؔ
ستم کا ہر طریقہ آزمایا ہے مقدر نے
غزل
ہماری پیاس کو اتنا جگایا ہے مقدر نے
مرلی دھر شرما طالب