ہماری نیند میں کوئی سراب خواب بھی نہیں
یہ کیسا ریگزار ہے فریب آب بھی نہیں
تھے کیسے کیسے لوگ میرے خیمۂ خیال میں
گئے دنوں کی خیر ہو کہ اب طناب بھی نہیں
یہ حادثہ کہ برف باریوں کی زد پہ آ گئے
مگر یہ واقعہ لہو میں کوئی تاب بھی نہیں
نہ کچھ گلہ نہ التفات ہجر کی سیاہ رات
فرامشی کا دور ہے کہ اب عذاب بھی نہیں
یہ لمحہ لمحہ زندگی کچھ اس طرح سے کٹ گئی
کہاں پہ خرچ کیا ہوا کوئی حساب بھی نہیں
غزل
ہماری نیند میں کوئی سراب خواب بھی نہیں
قمر صدیقی