ہماری محبت نمو سے نکل کر کلی بن گئی تھی مگر تھی نمو میں
نگاہوں سے باتیں کئے جا رہے تھے اٹکتی جھجکتی ہوئی گفتگو میں
نہ دے ہم کو الزام تو یہ کہ ہم نے تری چاہ میں کچھ کیا ہی نہیں ہے
مکاں کھود ڈالے زماں نوچ ڈالے کہاں آ گئے ہم تری جستجو میں
مجھے یہ ملا ہے مجھے وہ ملا ہے مجھے سب ملا ہے مگر یہ گلہ ہے
میں کیا مانگتا تھا یہ کیا مل گیا ہے کہ سب مل گیا ہے تری آرزو میں
کہیں خوشبوؤں کی ضرورت پڑی تو تمہیں سوچ کر سانس کھینچے گئے ہیں
نہ جانے کہاں سے چلی آ رہی ہے یہ خوشبو تمہاری ہمارے لہو میں
بھٹکتا پھرا میں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر اور کدھر سے کدھر
دھواں دار محفل نہ جام و سبو میں مزہ جو ہے وہ ہے فقط اپنی خو میں
غزل
ہماری محبت نمو سے نکل کر کلی بن گئی تھی مگر تھی نمو میں
عمران شمشاد