EN हिंदी
ہماری کاوش شعر و سخن بیکار جاتی ہے | شیح شیری
hamari kawish-e-sher-o-suKHan be-kar jati hai

غزل

ہماری کاوش شعر و سخن بیکار جاتی ہے

سردار آصف

;

ہماری کاوش شعر و سخن بیکار جاتی ہے
غزل کیسی بھی ہو اس کے بدن سے ہار جاتی ہے

یہ کیسے مرحلے میں پھنس گیا ہے میرا گھر مالک
اگر چھت کو بچا بھی لوں تو پھر دیوار جاتی ہے

مرے خوابوں کا اس کی آنکھ سے رشتہ نہیں ٹوٹا
مری پرچھائیں اکثر جھیل کے اس پار جاتی ہے

چلو آزاد ہو کر کم سے کم اتنا تو ہم سیکھے
کوئی سرکار آتی ہے کوئی سرکار جاتی ہے

جلا کر ٹھیک سے طاقوں میں ان کو رکھ دیا جائے
تو پھر ایسے چراغوں سے ہوا بھی ہار جاتی ہے