ہماری جاگتی آنکھوں میں خواب سا کیا تھا
گھنیری شب میں اگا آفتاب سا کیا تھا
کہیں ہوئی تو تھی ہلچل کہیں پہ گہرے میں
بگڑ بگڑ کے وہ بنتا حباب سا کیا تھا
تمام جسم میں ہوتی ہیں لرزشیں کیا کیا
سواد جاں میں یہ بجتا رباب سا کیا تھا
ہماری پیاس پہ برسا اندھیرے اجیالے
وہ کچھ گھٹاؤں سا کچھ ماہتاب سا کیا تھا
ذرا سی دیر بھی رکتا تو کچھ پتا چلتا
وہ رنگ تھا کہ تھی خوشبو سحاب سا کیا تھا
یہ تشنگی کا سفر کٹ گیا ہے جس کے طفیل
وہ دشت دشت چھلکتا سراب سا کیا تھا
تمام عمر کھپایا ہے جس میں سر بلقیسؔ
بھلا وہ بے سر و پا سی کتاب سا کیا تھا
غزل
ہماری جاگتی آنکھوں میں خواب سا کیا تھا
بلقیس ظفیر الحسن