ہماری آنکھوں میں اشکوں کا آ کے رہ جانا
جھکا کے سر کو ترا مسکرا کے رہ جانا
دلا بہت نہ الجھ نامہ بر کو کیا میں نے
سکھا دیا تھا کہ جانا تو جا کے رہ جانا
شہید ناز کی بھولی نہیں مجھے صورت
تری طرف کو نگاہیں پھرا کے رہ جانا
وہ بزم غیر وہ ہر بار اضطراب مرا
بہ مصلحت وہ ترا مسکرا کے رہ جانا
ٹھہر تو جا رخ جاناں پہ اے نگہ کچھ دیر
سند نہیں فقط آنسو بہا کے رہ جانا
نگاہ ناز سے ساقی کا دیکھنا مجھ کو
مرا وہ ہاتھ میں ساغر اٹھا کے رہ جانا
جو پوچھیں حشر میں کچھ وہ تو ہاں دلا شاباش
وہاں بھی تو یوں ہی باتیں بنا کے رہ جانا
اگر تھا نشہ تو گرنا تھا پائے خم پہ مجھے
مجھے پسند نہیں لڑکھڑا کے رہ جانا
نہیں یہ حسن نہیں بخت کی ہے کوتاہی
سوال وصل کا ہونٹوں تک آ کے رہ جانا
کسی طرح تو یہ جسم کثیف پاک ہو شاد
گلی میں یار کی جانا تو جا کے رہ جانا
غزل
ہماری آنکھوں میں اشکوں کا آ کے رہ جانا
شاد عظیم آبادی