ہماری آنکھ میں ٹھہرا ہوا سمندر تھا
مگر وہ کیا تھا جو صحرائے دل کے اندر تھا
اسی کو زلف میں ٹانکے یہ آرزو کیوں کر
وہ پھول جو کہ تری دسترس سے باہر تھا
وہ وقت آئے گا جب خود تمہی یہ سوچو گی
ملا نہ ہوتا اگر تجھ سے میں تو بہتر تھا
ہر ایک انگ لبالب بھرا ہو جیسے جام
تمہارا جسم تھا یا مے کدے کا منظر تھا
اسے بھی جاتے ہوئے تم نے مجھ سے چھین لیا
تمہارا غم تو مری آرزو کا زیور تھا
بہت قریب سے دیکھا تھا اس کو اے آزادؔ
وہ آرزو کا مری اک حسین پیکر تھا
غزل
ہماری آنکھ میں ٹھہرا ہوا سمندر تھا
آزاد گلاٹی