EN हिंदी
ہماری آج کل ہمت فقط آہ و فغاں تک ہے | شیح شیری
hamari aaj-kal himmat faqat aah-o-fughan tak hai

غزل

ہماری آج کل ہمت فقط آہ و فغاں تک ہے

محمد ولایت اللہ

;

ہماری آج کل ہمت فقط آہ و فغاں تک ہے
دل بیتاب کاکل جوش بس اس کے بیاں تک ہے

قدم رکھا جو میدان عمل میں ٹھوکریں کھائیں
ہمارے حوصلوں کی شان بس دل سے زباں تک ہے

الٰہی پھر نہ ہوگا آبرو برق و‌ رعد گلشن میں
مصیبت اس جگہ کیا صرف میرے آشیاں تک ہے

کبھی اک دن خدارا سرگزشت عاشقاں سن لو
کہ ان کا نام باقی اب فقط اس داستاں تک ہے

تعجب ہے نظر آتا نہیں تجھ کو ستم اپنا
ترے در پر ابھی باقی مرے خوں کا نشاں تک ہے

جفا اور ظلم کی فریاد لے کر ہم کہاں جائیں
رسائی غیر ممکن تیرے سنگ آستاں تک ہے

ترا ظلم و ستم تجھ کو نہیں معلوم اے ظالم
تری بیداد کا اک شور سقف آسماں تک ہے

چلیں گے کام اس دنیا کے میرے بعد بھی لیکن
تری محفل کی یہ رونق فقط مجھ خستہ جاں تک ہے

خزاں جائے گی جس دن پھر وہی جوش جنوں ہوگا
خموشی باغ عالم میں مرے خواب گراں تک ہے

عدد سے کہہ دو جب چاہے ہمارا امتحاں کر لے
ہمیں بھی دیکھنا ہے حوصلہ اس کا کہاں تک ہے

ہماری حق پرستی کی مثال ایسی ہے اے حافظؔ
رہے گا ذکر باقی یہ جہاں جب تک جہاں تک ہے