ہمارے سر ہر اک الزام دھر بھی سکتا ہے
وہ مہرباں ہے یہ احسان کر بھی سکتا ہے
چمن تو اپنی بہاروں پہ اتنا ناز نہ کر
شجر سے حسن کا زیور اتر بھی سکتا ہے
وہ جس نے زیست گزاری ہے قید ظلمت میں
وہ اک کرن سے اجالے کی ڈر بھی سکتا ہے
کہاں تک آپ لگائیں گے اس پہ ضبط کے باندھ
کبھی یہ آنکھوں کا دریا بپھر بھی سکتا ہے
یہ خاک و سنگ ہی کیا سطح آب پر شاربؔ
ہمارا نقش قدم ہے ابھر بھی سکتا ہے
غزل
ہمارے سر ہر اک الزام دھر بھی سکتا ہے
شارب مورانوی