EN हिंदी
ہمارے سر ہر اک الزام دھر بھی سکتا ہے | شیح شیری
hamare sar har ek ilzam dhar bhi sakta hai

غزل

ہمارے سر ہر اک الزام دھر بھی سکتا ہے

شارب مورانوی

;

ہمارے سر ہر اک الزام دھر بھی سکتا ہے
وہ مہرباں ہے یہ احسان کر بھی سکتا ہے

چمن تو اپنی بہاروں پہ اتنا ناز نہ کر
شجر سے حسن کا زیور اتر بھی سکتا ہے

وہ جس نے زیست گزاری ہے قید ظلمت میں
وہ اک کرن سے اجالے کی ڈر بھی سکتا ہے

کہاں تک آپ لگائیں گے اس پہ ضبط کے باندھ
کبھی یہ آنکھوں کا دریا بپھر بھی سکتا ہے

یہ خاک و سنگ ہی کیا سطح آب پر شاربؔ
ہمارا نقش قدم ہے ابھر بھی سکتا ہے