ہمارے ساتھ امید بہار تم بھی کرو
اس انتظار کے دریا کو پار تم بھی کرو
ہوا کا رخ تو کسی پل بدل بھی سکتا ہے
اس ایک پل کا ذرا انتظار تم بھی کرو
میں ایک جگنو اندھیرا مٹانے نکلا ہوں
ردائے تیرہ شبی تار تار تم بھی کرو
تمہارا چہرہ تمہیں ہو بہ ہو دکھاؤں گا
میں آئنہ ہوں، مرا اعتبار تم بھی کرو
ذرا سی بات پہ کیا کیا نہ کھو دیا میں نے
جو تم نے کھویا ہے اس کا شمار تم بھی کرو
مری انا تو تکلف میں پاش پاش ہوئی
دعائے خیر مرے حق میں یار' تم بھی کرو
اگر میں ہاتھ ملاؤں تو یہ ضروری ہے
کہ صاف سینے کا اپنے غبار تم بھی کرو
کوئی ضروری نہیں ہے کہ سب کی طرح فراغؔ
زمانے والی روش اختیار تم بھی کرو
غزل
ہمارے ساتھ امید بہار تم بھی کرو
فراغ روہوی