ہمارے ساتھ جسے موت سے ہو پیار چلے
کوئی چلے نہ چلے ہم تو سوئے دار چلے
نہ دور جام نہ اب قصۂ بہار چلے
انہیں کا ذکر چلے اور بار بار چلے
رخ زمانہ بدلنے چلے تھے دیوانے
ترے حضور مگر کس کا اختیار چلے
حیات عشق کا حاصل تھے بس وہی لمحے
جو تیری انجمن ناز میں گزار چلے
ادھر منائے گئے خوب جشن دار و رسن
کفن بہ دوش جدھر تیرے جاں نثار چلے
یہ غم نہیں کہ ہمیں کو یہاں اماں نہ ملی
خوشی یہ ہے کہ تری انجمن سنوار چلے
ہمیں چمن میں پیام بہار لائے تھے
چمن سے لے کے ہمیں حسرت بہار چلے
مری طرف سے مبارک ہو اہل گلشن کو
جو میرے بعد کبھی باد نوبہار چلے
یہ انقلاب عجب ہے کہ میکدے سے شمیمؔ
کدھر یہ تیغ بکف ہو کے بادہ خوار چلے

غزل
ہمارے ساتھ جسے موت سے ہو پیار چلے
شمیم جے پوری