ہمارے نام سے ان کو محبتیں کیسی
جو مر گئے تو کسی سے شکایتیں کیسی
اجڑ گئے ہیں حویلی کے سارے ہنگامے
مچا رکھی ہیں ہوا نے قیامتیں کیسی
سراپا پیار ہیں ہم تو وفا پرست بھی ہیں
ہم ایسے شخص کے دل میں کدورتیں کیسی
کبھی تو خود ہی رتوں کا مزاج بدلے گا
ستم کے زرد دنوں سے بغاوتیں کیسی
دلوں کا زہر امڈنے لگا ہے باتوں میں
ہر ایک لفظ سے عریاں ہیں نفرتیں کیسی
خزاں رسیدہ درختوں کے جسم چھلنی ہیں
ہوائے شہر نے کی ہیں شرارتیں کیسی
خود اپنے ہونٹ چبانا ہی ان کی عادت ہے
ہمارے دھیان نے دی ہیں حلاوتیں کیسی
صدائے ظرف تو کانوں میں گونجتی ہی نہیں
نیازؔ پھر یہ محبت میں وحشتیں کیسی
غزل
ہمارے نام سے ان کو محبتیں کیسی
نیاز حسین لکھویرا