EN हिंदी
ہمارے نام سے ان کو محبتیں کیسی | شیح شیری
hamare nam se un ko mohabbaten kaisi

غزل

ہمارے نام سے ان کو محبتیں کیسی

نیاز حسین لکھویرا

;

ہمارے نام سے ان کو محبتیں کیسی
جو مر گئے تو کسی سے شکایتیں کیسی

اجڑ گئے ہیں حویلی کے سارے ہنگامے
مچا رکھی ہیں ہوا نے قیامتیں کیسی

سراپا پیار ہیں ہم تو وفا پرست بھی ہیں
ہم ایسے شخص کے دل میں کدورتیں کیسی

کبھی تو خود ہی رتوں کا مزاج بدلے گا
ستم کے زرد دنوں سے بغاوتیں کیسی

دلوں کا زہر امڈنے لگا ہے باتوں میں
ہر ایک لفظ سے عریاں ہیں نفرتیں کیسی

خزاں رسیدہ درختوں کے جسم چھلنی ہیں
ہوائے شہر نے کی ہیں شرارتیں کیسی

خود اپنے ہونٹ چبانا ہی ان کی عادت ہے
ہمارے دھیان نے دی ہیں حلاوتیں کیسی

صدائے ظرف تو کانوں میں گونجتی ہی نہیں
نیازؔ پھر یہ محبت میں وحشتیں کیسی