ہمارے خواب ہماری پسند ہوتے گئے
ہم اپنے آئینہ خانوں میں بند ہوتے گئے
یہ کیا ہوا کہ بہ ایں جسم اس سے ملتے رہے
مگر فراق کے صدمے دو چند ہوتے گئے
ہر ایک فتح پہ مغرور ہو رہا تھا وہ
ہر اک شکست پہ ہم خود پسند ہوتے گئے
ہم ایسے بکھرے کہ اپنے ہی کام نہ آ سکے
کسی کے حق میں مگر سود مند ہوتے گئے
کسی کی بالا قدی کے شکوہ کی ضد میں
ہم اپنے قد سے زیادہ بلند ہوتے گئے
غزل
ہمارے خواب ہماری پسند ہوتے گئے
رونق رضا