EN हिंदी
ہمارے حق میں کوئی انقلاب ہے کہ نہیں | شیح شیری
hamare haq mein koi inqalab hai ki nahin

غزل

ہمارے حق میں کوئی انقلاب ہے کہ نہیں

منور ہاشمی

;

ہمارے حق میں کوئی انقلاب ہے کہ نہیں
ہماری سمت کھلا دل کا باب ہے کہ نہیں

وہ اک سوال تمنا جو بار بار ہوا
اس اک سوال کا کوئی جواب ہے کہ نہیں

ورق ورق پہ ترا نام جس میں لکھا ہے
وفا و مہر کی وہ دل کتاب ہے کہ نہیں

ترا گناہ بھی واعظ ثواب ہے لیکن
ہمارے نیک عمل کا ثواب ہے کہ نہیں

تمہارے نام مرے دل کی دھڑکنیں جو ہوئیں
تمہارے دل میں کچھ ان کا حساب ہے کہ نہیں

ہے میرا ذہن تو تخلیق خواب میں مصروف
تمہارے ذہن میں تعبیر خواب ہے کہ نہیں

میں دل کی بات منورؔ ضرور اس سے کروں
سماعتوں کی مگر اس کو تاب ہے کہ نہیں