ہمارے دل میں یادوں کو سلیقے سے رکھا جائے
کہ اس کمرے میں پھولوں کو سلیقے سے رکھا جائے
مسیحائی کی پھر کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی
اگر زخموں پہ اشکوں کو سلیقے سے رکھا جائے
دلوں کی حکمرانی کا یہ اک اچھا طریقہ ہے
ہر اک جملے میں لفظوں کو سلیقے سے رکھا جائے
ادب ہے دین و دنیا ہے چھپا ہے علم بھی اس میں
مرے بچو کتابوں کو سلیقے سے رکھا جائے
ترا یہ گھر لگے گا خوب صورت اے مرے بھائی
اگر ان سارے رشتوں کو سلیقے سے رکھا جائے
وہ جانے والا جانے کون سے پل لوٹ کر آئے
ابھی رستے پہ آنکھوں کو سلیقے سے رکھا جائے
برستی ہے خدا کی رحمتیں ان کی دعاؤں سے
گھروں میں سب بزرگوں کو سلیقے سے رکھا جائے
غریبی دیکھتی رہتی ہے حسرت سے کھڑی ہو کر
دکانوں میں کھلونوں کو سلیقے سے رکھا جائے
پڑوسی کا بھی حق ہے تجھ پہ اتنا یاد رکھ محسنؔ
منڈیروں پر چراغوں کو سلیقے سے رکھا جائے
غزل
ہمارے دل میں یادوں کو سلیقے سے رکھا جائے
محسن آفتاب کیلاپوری