ہمارے دل کی بجا دی ہے اس نے اینٹ سے اینٹ
ہمارے آگے کبھی اس کا نام مت لینا
اسی نگاہ سے پینے میں لطف ہے سارا
علاوہ اس کے کوئی اور جام مت لینا
اسی سبب سے ہے دنیا میں آسماں بدنام
تم اپنے ہاتھ میں یہ انتظام مت لینا
دل و نظر کی بقا ہے فقط محبت میں
دل و نظر سے کوئی اور کام مت لینا
یہاں پہ اچھا ہے جتنا بھی مختصر ہو قیام
ذلیل ہوگے حیات دوام مت لینا
یہ سارے لوگ تمہارا مذاق اڑاتے ہیں
جہاں میں اور محبت کا نام مت لینا
رہوگے چاند کی سرگوشیوں سے بھی محروم
کسی سے دھوپ کا جلتا کلام مت لینا
اگرچہ تم پہ ہوا ہے یہاں پہ ظلم بہت
کسی سے اس کا مگر انتقام مت لینا
غزل
ہمارے دل کی بجا دی ہے اس نے اینٹ سے اینٹ (ردیف .. ا)
فواد احمد