ہمارے بس میں کیا ہے اور ہمارے بس میں کیا نہیں
جہان ہست و بود میں کسی پہ کچھ کھلا نہیں
حضور خواب دیر تک کھڑا رہا سویر تک
نشیب قلب و چشم سے گزر ترا ہوا نہیں
نظر میں اک چراغ تھا بدن میں ایک باغ تھا
چراغ و باغ ہو چکے کوئی رہا رہا نہیں
اجڑ گئیں حویلیاں چلی گئیں سہیلیاں
دلا تری قبیل سے کوئی بھی اب بچا نہیں
ہوس کی رزم گاہ میں بدن کی کار گاہ میں
وہ شور تھا کہ دور تک کسی نے کچھ سنا نہیں
نہ جانے کتنے یگ ڈھلے نہ جانے کتنے دکھ پلے
گھروں میں ہانڈیوں تلے کسی کو کچھ پتہ نہیں
وہ پیڑ جس کی چھاؤں میں کٹی تھی عمر گاؤں میں
میں چوم چوم تھک گیا مگر یہ دل بھرا نہیں
غزل
ہمارے بس میں کیا ہے اور ہمارے بس میں کیا نہیں
حماد نیازی