ہمارے عہد کا منظر عجیب منظر ہے
بہار چہرے پہ دل میں خزاں کا دفتر ہے
نہ ہم سفر نا کوئی نقش پا نا رہبر ہے
جنوں کی راہ میں کچھ ہے تو جان کا ڈر ہے
ہر ایک لمحہ ہمیں ڈر ہے ٹوٹ جانے کا
یہ زندگی ہے کہ بوسیدہ کانچ کا گھر ہے
اسی سے لڑتے ہوئے ایک عمر بیت گئی
مری انا ہی مرے راستے کا پتھر ہے
تمام جسم ہیں جس کے خیال میں لرزاں
وہ تیرگی کا نہیں روشنی کا خنجر ہے
میں ایک قطرہ ہوں لیکن مرا نصیب تو دیکھ
کہ بے قرار مرے غم میں اک سمندر ہے
اسی کے پیچھے رواں ہوں میں پاگلوں کی طرح
وہ ایک شے جو مری دسترس سے باہر ہے
اسی خیال سے ملتا ہے کچھ سکوں دل کو
کہ ناصبوری تو اس دور کا مقدر ہے
کبھی تو اس سے ملاقات کی گھڑی آئے
جو میرے دل میں بسا ہے جو میرے اندر ہے
عقاب ظلم کے پنجے ابھی کہاں ٹوٹے
ابھی تو فاختۂ امن خون میں تر ہے
خدا کی مار ہو اس جہل آگہی پہ حفیظؔ
بہ زعم خود یہاں ہر شخص اک پیمبر ہے
غزل
ہمارے عہد کا منظر عجیب منظر ہے
حفیظ بنارسی