ہمارا عزم سفر کب کدھر کا ہو جائے
یہ وہ نہیں جو کسی رہ گزر کا ہو جائے
اسی کو جینے کا حق ہے جو اس زمانے میں
ادھر کا لگتا رہے اور ادھر کا ہو جائے
کھلی ہواؤں میں اڑنا تو اس کی فطرت ہے
پرندہ کیوں کسی شاخ شجر کا ہو جائے
میں لاکھ چاہوں مگر ہو تو یہ نہیں سکتا
کہ تیرا چہرا مری ہی نظر کا ہو جائے
مرا نہ ہونے سے کیا فرق اس کو پڑنا ہے
پتہ چلے جو کسی کم نظر کا ہو جائے
وسیمؔ صبح کی تنہائی سفر سوچو
مشاعرہ تو چلو رات بھر کا ہو جائے
غزل
ہمارا عزم سفر کب کدھر کا ہو جائے
وسیم بریلوی