ہمارا آئنہ بے کار ہو گیا تو پھر!
تمہارا حسن طرحدار ہو گیا تو پھر!
ملا کے خاک میں وہ سوچتا رہا برسوں
میں آئنے میں نمودار ہو گیا تو پھر!
رکاوٹیں تو سفر کا جواز ہوتی ہیں
یہ راستہ کہیں ہموار ہو گیا تو پھر!
وہ ماہتاب ہے، میں جھیل اور سفر درپیش
وہ مجھ سے ہوتا ہوا پار ہو گیا تو پھر!
تمام شہر نے لوٹا دیا ہے خالی ہاتھ
اور اس کے در سے بھی انکار ہو گیا تو پھر!
تو کیوں نہ راستہ تبدیل کر لیا جائے
کہیں جو مجھ سے تمہیں پیار ہو گیا تو پھر!
غزل
ہمارا آئنہ بے کار ہو گیا تو پھر!
الیاس بابر اعوان