ہمہ جہت مری طلب جس کی مثال اب نہیں
ترا خیال ہے مگر اپنا خیال اب نہیں
شوق کا بحر بیکراں محو سکوت جاوداں
اس میں نہ کوئی جوش اب اس میں ابال اب نہیں
غم کی زمیں پہ آسماں باقی رہا نہ اے میاں
دل کی یہ سوگواریاں رو بہ زوال اب نہیں
اب نہ حریم ناز سے ہوگا طلوع آفتاب
قرب جمال تو گیا لطف وصال اب نہیں
دور ہے رہ حبیب کی بات یہ ہے نصیب کی
جینا محال ہو گیا مرنا محال اب نہیں
رقص کناں ہے واں ہوس اس پہ رہی نہ دسترس
حسن ملیح ساکن شہر جمال اب نہیں
تیرے کرم پہ جی رہی کب سے ہے میری کج روی
کوئی جواب اب نہیں کوئی سوال اب نہیں
لے کے نئی نئی غزل آ ہی گئے فریدؔ اب
سن اے چراغ انجمن تیرا زوال اب نہیں
غزل
ہمہ جہت مری طلب جس کی مثال اب نہیں
فرید پربتی