ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے
ساحل سے سمندر کا نظارہ نہیں کرتے
ہر شعبۂ ہستی ہے طلب گار توازن
ریشم سے کبھی ٹاٹ سنوارا نہیں کرتے
دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے تو پھر کیوں
دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے
دستک سے علاقہ رہا کب شیش محل کو
خوابیدہ سماعت کو پکارا نہیں کرتے
ہم فرط مسرت میں کہیں جاں سے نہیں جائیں
اس خوف سے وہ ذکر ہمارا نہیں کرتے
ہم ان کے تغافل کو سمجھتے تو ہیں لیکن
دنیا بھی سمجھ لے یہ گوارا نہیں کرتے
ظلمت سے ہی کچھ نور نچوڑو کہ ہم ارشدؔ
مانگے کے اجالے پہ گزارا نہیں کرتے
غزل
ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے
ارشد کمال