ہم زمانے میں محبت کے بھکاری ٹھہرے
دوست ہیں سب کے مگر دشمن جاں ہیں اپنے
آج کی رات کہیں شعلۂ گل ہی بھڑکے
جانے کل صبح کہاں ہوں گے ہم اڑتے پتے
جان من اب کے یہ آداب ہیں تیرے کیسے
بانکپن میری غزل کا تری محفل میں لٹے
وہ صبا ہے تو رہے کس لئے گلشن سے پرے
یہ شب گل ہے تو کیوں سیج پہ کانٹوں کے کٹے
کیوں پھرے دشت میں دیوانے ہوئے کس کے لئے
ہم کو معلوم نہیں پوچھئے ان آنکھوں سے
مر چکیں کب کی تمنائیں سسک کر لیکن
دل کی دیوار سے راتوں کو کوئی سر پٹکے
کہیں منزل سے بھٹک جائے نہ دیوانہ گل
جادۂ شہر بہاراں میں بچھا دو کانٹے
ڈال دل کھول کے ان ٹوٹے ہوئے شیشوں میں
سنگ آئے ہیں بہت راہ میں ہم پر پیارے
یہ تری یاد کا عالم شب تنہائی میں
جیسے لہرا کے کرن کالی گھٹا سے چھوٹے
ان بھری راہوں میں سب مرے ہیں میں کس کا ہوں
دوں صدا کس کو لگے کون کلیجے سے مرے
کون اترے گا مرے دل کے گلستانوں میں
کون گزرے گا مرے چہرے کے صحراؤں سے
راکھ اس گھر میں وہ اڑتی ہے کہ جیسے حشمیؔ
طاق میں شمع نہ تھی صحن میں مہتاب نہ تھے

غزل
ہم زمانے میں محبت کے بھکاری ٹھہرے
جلیل حشمی